مروہ الشربینی، مصری خاتون (1977–2009)، جسے ایک روسی نژاد نسل پرست نے جرمنی کی بھری عدالت میں اٹھارہ دفعہ چھری کے وار کر کے قتل کر دیا۔ جرمنی کی پولیس منہ دیکھتی رہی، جب مروہ کا خاوند اسے بچانے کے لیے آگے بڑھا تو پولیس نے خاوند کو گولی مار دی۔ مروہ کے تین سالہ بیٹے نے یہ تمام منظر دیکھا۔ واقعات کے مطابق روسی ایلکس نے مروہ کو \”دہشت گرد\” کہا تھا اور دشنام طرازی کی تھی جب وہ اپنے بچے کے ساتھ پارک میں تھی۔ مروہ کی شکایت پر ایلکس کو جرمانہ کیا گیا اور دونوں کا آمنا سامنا عدالت میں اسی مقدمہ میں ہوا۔ مصر میں اس نسل پرستی کے واقعہ پر شدید رد عمل ہوا ہے جبکہ جرمنی نے اسے ایک عام واقعہ گردانا ہے۔ 1
نام | مروہ علی الشربینی |
لقب | شہیدۃ الحجاب |
پیدائش | 7 اکتوبر 1977 اسکندریہ، مصر |
رہائش | اسکندریہ، مصر و ڈریسڈن،جرمنی |
شہریت | مصر |
زبان | مصری عربی |
خاندان والد والدہ شوہر اولاد | کیمیا دان الشربینی لیلیٰ شمس علوی علی عکاز مصطفیٰ |
مذہب | اسلام |
وجہ شہرت | حجاب پر سختی سے کاربند، شہادت |
مادر علمی | جامعہ اسکندریہ |
علمی لیاقت | بی۔اے۔ |
پیشہ | فارماسسٹ |
وفات | 1 جولائی 2009ء (عمر 31 سال) ڈریسڈن، جرمنی |
طرز وفات | خنجر سے قتل |
قاتل | ایلیکس ونس |
ابتدائی زندگی
مروہ الشربینی 1977 میں اسکندریہ، مصر میں کیمیا دان علی الشربینی اور لیلیٰ شمس کے ہاں پیدا ہوئیں۔ 2 1995 میں، انھوں نے النصر گرلز کالج سے گریجویشن کیا، جہاں انھوں نے طالب علم مقرر {Student Speaker} کے طور پر کام کیا۔ الشربینی نے اسکندریہ یونیورسٹی میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کی۔ 2000 میں فارماسیوٹیکل سائنسز میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ 1992 سے 1999 تک، وہ مصر کی قومی ہینڈ بال ٹیم کی رکن رہی۔ 3 2005 میں، الشربینی اپنے شوہر ایلوی علی اوکاز کے ساتھ بریمن، جرمنی منتقل ہوگئیں۔ 2008 میں، جوڑے اور ان کا دو سالہ بیٹا ڈریسڈن چلے گئے، جہاں منوفیہ یونیورسٹی کے لیکچرر اوکاز نے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار مالیکیولر سیل بیالوجی اینڈ جینیٹکس میں ڈاکٹریٹ کی تحقیقی پوزیشن حاصل کی۔ 3 الشیربینی نے جرمنی میں فارمیسی پریکٹس کرنے کے لیے ایکریڈیٹیشن پروگرام کے ایک حصے کے طور پر ڈریسڈن کے یونیورسٹی ہسپتال کارل گسٹاو کارس اور مقامی فارمیسی میں کام کیا۔ دوسروں کے ساتھ مل کر، الشربینی نے ڈریسڈن میں ایک اسلامی ثقافتی اور تعلیمی مرکز کے قیام کے مقصد سے ایک رجسٹرڈ رضاکارانہ انجمن قائم کی۔ 3 4 اپنی موت کے وقت، الشربینی تین ماہ کی حاملہ تھی، اپنے دوسرے بچے کی توقع کر رہی تھی۔


شہادت کا پس منظر
31 سالہ مروا الشیربینی اپنے شوہر ایلوی عکاذ کے ہمراہ جرمنی میں رہائش پزیر تھیں جہاں ایلوی عکاذ بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ آپ نے اجنبی ملک میں بھی بلا خوف و خطر حجاب کو اپنایا ہوا تھا۔ 2008 مروا ایک روز ایک تفریحی مقام پر اپنے بیٹے مصطفیٰ کے ساتھ ٹہل رہی تھیں کہ ایک اٹھائیس سالہ جرمن نوجوان (جس کا نام ”ایلکس“ بتایا گیا ہے) اس باحجاب خاتون کو میں” دہشت گرد اسلامسٹ“ کہہ کر پکارا۔ مروا شیرینی نے ”ایلکس“ کی اس بد تمیزی پر جرمنی کی ایک عدالت میں ایلکس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ عدالت میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں لکھا کہ” جرمن نوجوان نے ان کی مذہبی شناخت کی توہین کی ہے“ چنانچہ تحقیق و تفتیش کے بعد ایلکس کو مجرم ٹھہرا کراس پر عدالت نے 750 یورو جرمانہ عائد کیا۔ ایلکس ڈبلیو نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی جس پر عدالت نے فریقین کو طلب کیا۔
شہادت
7 جولائی 2009 کو مروا شیرینی عدالت پہنچی جبکہ خبیث جرمن نوجوان بھی عدالت پہنچا ،ابھی نظر ثانی کی درخواست شنوائی کا آغاز ہو ہی رہا تھا کہ اس حجاب دشمن جرمن نوجوان نے عفت مآب مروا شیرینی پر تیز دھار خنجر سے حملہ کر دیا۔ اس نے مروا کو لہو لہان کر کے انہیں اٹھارہ سے زائد وار کیے جن کی تاب نہ لاکر مروا شیرینی کمرہ عدالت میں جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت کے وقت آپ تین ماہ کی حاملہ تھیں اس دوران ان کے شوہر نے درندہ صفت جرمن نوجوان پر جھپٹنے کی کوشش کی تو اس درندے نے ا ن کو بھی لہو لہان کر دیا۔ ایلوی عکاذ گزشتہ کئی دنوں سے اسپتال میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ جبکہ عدالت میں وقوع ہونے والے اس دلخراش واقعے میں مروا کا تین سالہ بیٹا مصطفی بھی ان کے ساتھ تھا جو معجزاتی طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔
جرمن حکومت کا شرمناک کردار
انسانی حقوق کے چیمپیئن جرمنی کی پولیس کی جانبداری اس سے عیاں ہے کہ جس وقت جرمن درندہ ایلکس نے عفت مآب مروا شیرینی پر حملہ کیا تو عدالت میں موجود پولیس نے ایلکس کو قتل کرنے کی بجائے مروا شیرینی کے شوہر پر گولی چلائی۔ عدالت ابھی تک ایلکس کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر نہیں کر سکی اور یہ کہ مجرم کمرہ عدالت میں چاقو کیسے ساتھ لایا تھا اور اسے مسلم خاتون کو حجاب پر قتل کرنے کی عدالت میں کس نے اجازت دی تھی اس سب پر جرمن عدالت پر دہ ڈالے ہوئے ہے۔ سالوں گزرنے کے باوجود جج اور وکلا کی موجودگی میں قتل کے مذموم فعل کا ارتکاب کرنے والے نسلی حیوان ایلکس کو ابھی تک جرمن حکومت مجرم کو قرار واقعی سزا دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔
مصری حکومت کی بے حسی
اگرچہ مصری خاتون”شہیدہ الحجاب“ کے اس بہیمانہ قتل پر مصری مسلمانوں میں زبردست اشتعال پایا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود حسنی مبارک کی امریکا نواز سرکار اس سانحے پر جرمن حکومت کے خلاف کسی بھی کارروائی سے صرف نظر کرتی رہی۔ مصری حکومت کے اس شرمناک طرز عمل پر مصری اخبارات اپنی شدید برہمی کا اظہار کرتے رہے اور فوری طور پر ”شہیدہ الحجاب“ کے جرمن قاتل کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے، مگر ان کی ایک نہ سنی گئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ حسنی مبارک حکومت نے مصر میں عوامی احتجاج پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس وجہ سے مصری مسلمان سڑکوں پر آکر کوئی بھی احتجاج کرنے سے قاصر رہے۔
قاتل
جرمن نوجوان جس کا نام ”ایلکس“ بتایا گیا ہے اپنے خبث دل اور نجس دماغ میں مسلمانون کے ساتھ انتہائی درجے کی نفرت رکھتا ہے۔ وہ جرمنی کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جو غیر جرمن کے ساتھ بھی تعصب رکھتی ہے اور مسلمان دشمنی میں پیش پیش ہے۔ وہ جرمنی میں مساجد کے خلاف آج تک کئی مرتبہ احتجاج کر چکی ہے۔ 5
آخری رسومات
پیر 6 جولائی 2009 کو مصر کے شہر اسکندریہ میں 32 سالہ حاملہ مصری خاتون مروہ الشربینی کے آخری رسومات میں ہزاروں کی تعداد میں مصریوں نے شرکت کی اس دوران مروہ کے تابوت کو گھیرے میں لے لیا۔ 6

اس کے بعد جرمن کے بھی کچھ لوگوں نے مروہ کی شہادت پر افسوس جتایا۔

- https://www.theguardian.com/world/2009/jul/07/german-trial-hijab-murder-egypt[↩]
- https://www.welt.de/vermischtes/article6313466/Ali-El-Sherbini-Marwas-Vater-ist-tot.html[↩]
- https://archive.ph/20120912132818/http://www.sz-online.de/nachrichten/artikel.asp?id=2209078[↩][↩][↩]
- https://m.tagesspiegel.de/politik/dresden-freunde-planen-marwas-ort/1556280.html?utm_referrer=https%3A%2F%2Fen.m.wikipedia.org%2F[↩]
- https://www.amadeu-antonio-stiftung.de/todesopfer-rechter-gewalt/marwa-el-sherbiny-staatlich-anerkannt/[↩]
- https://www.virtualmosque.com/society/international/the-headscarf-martyr-murder-in-german-court-sparks-egyptian-fury/[↩]